IMAGE635889055828695104

’’حوزہ‘‘ خبر رساں: ادارہ پیام امام ہادی علیہ السلام وہ ادارہ ہے جو گمنامی کے ساتھ شہر مقدس قم میں تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف اور اس بات پر قادر ہے کہ اپنے حصہ کی خدمات سے حوزوی علوم کے مختلف شعبوں میں تحقیقی خلاء کو پر کرے۔

اس ادارہ کے سرپرست حجت الاسلام سید ہادی رفیعی پور نے حوزہ خبر رساں سے اپنی بات چیت میں اس ادارہ کی سرگرمیوں کا ذکر کیا۔

ایسا ادارہ جو حوزوی علوم کے میدان میں پائے جانے والے خلاء کو پر کرنے کے لیے کوشاں ہے

 

سب سے پہلے ادارہ پیام امام ہادی علیہ السلام کے قیام میں آنے کے محرک سے آشنا کریں۔ آپ نے کس سن میں اس ادارہ کو قائم کیا؟

تیرہویں صدی ہجری کے آغاز میں ۱۵ ذی الحجہ کو حضرت امام ہادی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے دن یہ ادارہ وجود میں آیا اور اب تک اس ادارہ کی سرگرمیوں کو ایک صدی کا چوتھائی حصہ گذر چکا ہے۔

ہم نے ایک ایسے ادارہ کو قائم کرنے کی کوشش کی ہے جو دین سے مربوط ان تحقیقی و تألیفی امور کو انجام دے سکے جو اب تک عمل میں نہ آئے ہیں۔

میں مشورہ لینے کا قائل ہوں لہذا جب میں نے اس ادارہ کو قائم کرنا چاہا تو اپنے چند دوست و احباب اور بعض علماء و مراجع کرام سے مشورہ لیا سبھی کا کہنا تھا کہ اچھا اقدام ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قیام ادارہ سے قبل میں حوزہ میں مصروف تدریس تھا اور تبلیغ کے فرائض کو بھی انجام دیتا تھا لیکن جب سے ہم نے اس ادارہ آغاز کیا نہ ہی تدریس کر سکتا ہوں اور نہ ہی تبلیغ پر جا سکتا ہوں جبکہ جو افراد میرے پاس سطحی دروس میں مصروف تحصیل تھے انکا اصرار رہا کہ درس خارج کی شروعات کروں البتہ میں نے یہ دیکھا کہ درس خارج تو بہت ہو رہے ہیں لیکن اب تحقیقی امور پر خاص توجہ کی ضرورت ہے۔

آپ نے فرمایا کہ غیر تکراری کام کرنے کے مقصد سے اس ادارہ کا آغاز کیا ہے تو اب تک آپ نے کیا کیا ؟

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دسیوں ادارے بھی تمام نامکمل امور کو انجام نہیں دے سکتے لہذا ہم نے اپنی استطاعت اور توانائی کے ساتھ جتنا ممکن ہو سکا کیا۔

سب سے پہلے ہم نے شیخ صدوقؒ کی کتاب ’’المقنع‘‘ کو شائع کیا اس کتاب کی طرف تمام فقہاء رجوع کرتے ہیں خصوصاً وہ فقہاء جو درس خارج دیتے ہیں۔ یہ کتاب شیعہ فقہی کتابوں میں سب سے قدیم اور گرانقدر کتاب شمار کی جاتی ہے لہذا جب بھی فقہاء نقل اقوال کرنا چاہیں تو انہیں اس کی طرف رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔

دوسری کتاب جس پر ہم نے کام کیا وہ شیخ صدوقؒ کی کتاب ’’الھدایہ‘‘ تھی۔ اس کتاب کی طرف بھی فقہاء رجوع کرتے ہیں۔

مطالب کے لحاظ سے دونوں کتابیں فقہی ہیں۔ میری ترجمانی ہے کہ یہ دونوں’’مثلان‘‘ یعنی ایک جیسی نہیں ہیں بلکہ ’’اختان‘‘ یعنی دو بہنیں ہیں۔ ہم نے ’’المقنع‘‘ پر ۵ سال سے زیادہ عرصے تک کام کیا اور یہ خیال تھا کہ ’’الھدایہ‘‘ پر کم وقت صرف ہوگا لیکن ’’الھدایہ‘‘ کے کام میں بھی ہم ۳ سال تک مصروف رہے۔ اسی لیے میرا کہنا ہے کہ یہ ’’اختان‘‘ ہیں ان میں فرق نہیں پایا جاتا۔

ہم نے ثابت کر دیا کہ ’’الھدایہ‘‘ اور ’’المقنع‘‘ کا متن فقہ ماثور ہے

کیا آپکا کام بھی محض خطی نسخوں کا باہمی تقابل اور پھر طبع کتاب تھا؟

حوزوی کاموں کا ایک رائج طریقہ کتاب کا چند خطی نسخوں کے ساتھ تقابل اور خطی نسخوں کے درمیان اختلاف کو برطرف کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ادارہ امام ہادی علیہ السلام کا ایک اور خاص کام تھا۔

ہم نے بزرگوں(منجملہ آیت اللہ بروجردی) کو یہ کہتے سنا ہے: ’’شیخ صدوقؒ کی کتابوں کا متن روایت ہے‘‘۔ یہ صدیوں سے کہا جاتا رہا ہے کہ آیا یہ کتابیں ہیں یا فقہ و روایت دونوں ہیں۔ آیت اللہ بروجردی کا اصرار تھا کہ فقہ ماثور ہے۔

پروردگار نے ہمیں اس توفیق سے نوازا کہ چند احباب کے تعاون سے ’’المقنع‘‘ پر پانچ سال اور ’’الہدایہ‘‘ پر تین سال کام کیا۔ ان تمام عبارتوں کو ہم نے جزء جزء کی شکل میں’’مثلہ‘‘، ’’نحوہ‘‘، ’’بمعناہ‘‘، یا ’’بتفاوت یسیر فی الفاظہ‘‘ شیعہ احادیث کی قابل قدر کتابوں میں تلاش کیا اور فٹ نوٹ کی صورت میں انہیں درج کیا بطور متوسط ہم نے ہر جزء اور ہر حصہ کے لیے پانچ فٹ نوٹ مندرج کیے ہیں۔

اس کام کے ذریعہ علماء کے اس طبقہ کی بات علیحدہ ہو گئی جنکا مطمع نظر یہ تھا کہ شیخ صدوقؒ کی عبارتیں صرف فقہ ہیں اور انکا مبنی بھی تبدیل ہو گیا۔ یہ ایسا کام ہے جو فقہی اور اصولی میدان میں متعدد عملی نتائج کا حامل ہے۔ اسکے ثمرات کو دیکھنے کے لیے آپ الھدایہ کے مقدمہ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

شیخ صدوقؒ اور شیخ مفیدؒ کے مابین اختلاف کو ختم کرنا

ایک اور کام جس کا افتتاح کچھ سال پہلے رہبر انقلاب کی موجودگی میں ہوا وہ شیخ صدوقؒ کی کتاب ’’اعتقادات‘‘ ہے، ۷ سال اس کتاب پر کام کرنے کے بعد ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کتاب کا متن بھی روایت ہے۔

آپ اس بات سے واقف ہیں کہ شیخ مفیدؒ شیخ صدوقؒ کے شاگرد تھے انہوں نے ’’تصحیح الاعتقاد‘‘ نامی کتاب لکھ  کے اعتقاد پر تنقید کی ہے۔ رہبر انقلاب نے جب کتاب اعتقادات کا رسم الاجراء کیا اور اسے دیکھا تو میں نے ان سے عرض کیا کہ شیخ صدوقؒ کی مکمل کتاب روایت ہے۔

انہوں نے فرمایا: روایت؟

میں نے کہا: جی ہاں

پھر فرمایا: روایت؟

میں نے کتاب کھولی اور کہا: جناب! یہ متن اور یہ فٹ نوٹ! انہوں نے بے اختیار فرمایا: مفید! مفید! (یعنی شیخ مفیدؒ اور شیخ صدوقؒ کے نظریاتی اختلاف کے مسئلہ کا کیا کریں؟)

میں نے عرض کیا: ہم نے کتاب اعتقادات کے مقدمہ میں شیخ مفیدؒ اور شیخ صدوقؒ کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کا فیصلہ علامہ مجلسیؒ، سید نعمت اللہ جزائری، آیت اللہ سبحانی اور آیت اللہ صافی سے بیان کیا ہے۔ کلمات کی تحقیق کے بعد ان علماء نے کچھ مقامات پر شیخ صدوقؒ اور بعض جگہوں پر شیخ مفیدؒ سے حق منسوب کیا ہے۔ کچھ موارد میں قائل ہوئے ہیں کہ یہ شیخ مفیدؒ نے جو کہا تنقید نہیں بلکہ شرح ہے۔

شیعہ عقائد اور سنت کے بنیادی مسائل (مثلاً توحید، نبوت، عصمت انبیاء اور امامت) میں شیخ صدوقؒ اور شیخ مفیدؒ کے درمیان اختلاف نہیں ہے لیکن بعض مسائل میں جیسے لوح، کرسی اور عرش وغیرہ کے معانی کے اعتبار سے ان دونوں حضرات میں اختلاف ہے۔

تکراری مگر مفید کام!

کچھ ناشر پہلے ہی ان کتابوں کو شائع کر چکے ہیں۔ کیا یہ پچھلی طباعت سے مختلف ہے؟

دو طرح کی تکراریں ہیں۔ کبھی تکرار معمولی ہوتی ہے کہ نسخوں کے اختلاف میں نہ زیادہ مطالب لکھے جاتے ہیں اور نہ ہی زیادہ مصادر۔ لیکن ہمارا یہ کام تکراری نہیں ہے۔

مرحوم غفاری برسوں پہلے اسی کام کو انجام دے چکے ہیں جو اس زمانہ میں قابل قدر کام تھا، لیکن ہم نے ہر صفحہ پر نسخوں کے اختلاف سے ۲۰ سے ۳۰ تعلیق کو تحریر کیا ہے یہ کام بے جا تکرار نہیں ہے۔

زیارتوں کے باب میں بھی ہم اس طرح کام انجام دے رہے ہیں جیسے زیارت جامعہ کبیرہ، زیارت جامعہ صغیرہ اور زیارت غدیرامیر المومنین کی تمام عبارتوں کو شیعہ اور سنی کی ملتی جلتی روایات کے ذکر کے ساتھ شائع کریں گے۔ اگرچہ تمام عبارتوں سے متعلق روایتیں نہ ہوں تب بھی ان میں سے بہت سی روایتیں حاصل ہو سکتی ہیں خصوصاً علم امام، قرب ائمہ طاہرین اور معصومین علیھم السلام کی فضیلت سے مربوط شافعی حضرات کے یہاں حدیثیں موجود ہیں جسکے وہ قائل بھی ہیں۔

ایک اور کتاب جس پر ہم ۱۳ سال سے کام کر رہے ہیں وہ شیخ طوسیؒ کی ’’النھایہ‘‘ ہے۔ الھدایہ کی طرح قدیم خطی نسخوں سے مقائسہ کے علاوہ ہم یہ ثابت کریں گے کہ اس کی عبارتیں روایت ہیں۔

ہمارے کچھ کام موضوع مہدویت پر بھی ہیں۔ ان میں سے علامہ نیلی کی ایک کتاب ’’منتخب انوار المضیئہ فی ذکر الحجۃ(عج)‘‘ ہے ہم نے اس پر تحقیق و تصحیح کی ہمارے اس کام کو کتاب سال حوزہ، کتاب سال ولایت اور کتاب مہدویت کا شرف ملا۔

اس ضمن میں ہم نے’’موسوعہ کلمات امام مہدی(عج)‘‘ نامی ایک کتاب لکھی جس میں امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے متعلق معتبر روایات کو جمع کیا ہے۔

ایک اور کتاب ’’ الدعاء للمنتظر المھدی(عج) و الفرج علی یدیہ فی لسان النبی و اھل بیتہ‘‘ ہے جس میں امام زمان عج اللہ تعالی فرجہ الشریف سے متعلق نبی اکرم اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کی زبان سے نقل ہونے والی دعائیں موجود ہیں۔

’’البشری فی ذکر من حظی برؤیۃ الحجۃ الکبری‘‘ ہم نے اس کتاب میں ولادت ولی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے غیبت کبری تک آپکی زیارت سے مشرف ہونے والے افراد کا تذکرہ کیا ہے۔

ایک اور کتاب ’’دعاء الندبہ و توثیقہ من الکتاب و السنہ‘‘ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ دعائے ندبہ کی سند کے بارے میں شک کرتے ہیں لہذا انکا شک دور کرنے کے لیے ہر عبارت سے متعلق ۵ سے ۶ روایت کو بعنوان مصداق بیان کیا ہے۔

ادارہ پیام امام ہادی علیہ السلام میں شیخ صدوقؒ کی کتابوں کو زندہ کرنا

شیخ صدوقؒ کی کتاب ’’اعتقادات‘‘ کئی فیسٹیول میں برتر منتخب کی جا چکی ہے اور لوگوں نے اسے خوب سراہا ہے یہاں تک کہ یہ تیسری طباعت کے مرحلہ میں پہونچ گئی۔ چونکہ میں خود اپنا نام کتابوں پر نہیں لکھتا تو ایسی باتیں بھی سننے کو ملیں کہ بعض دوسرے ممالک مقدمہ حذف کر کے اپنے ناموں سے کتاب شائع کر چکے ہیں!

شیخ صدوقؒ کی دو اور کتابیں ’’خصال‘‘ اور ’’کمال الدین‘‘ پر بھی ہم کام کر رہے ہیں۔

کیا ادارہ امام ہادی علیہ السلام نے عوام الناس کے لیے بھی کتابیں تالیف کی ہیں؟

جی ہاں۔ ہم نے چھوٹی چھوٹی گرانقدر علمی کتابیں بھی شائع کی ہیں ان میں سے ایک ’’انوار درخشان‘‘ ہے اس کتاب میں روزہ اور ماہ رمضان سے متعلق چالیس معتبر حدیثیں ہیں۔ اس کتاب کے دیگر مطالب میں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا خطبہ شعبانیہ اور امیر المومنین علیہ السلام کا وہ خطبہ بھی ہے جو آپنے مسجد کوفہ میں دیا اسی خطبہ میں اپنی شہادت کی خبر بھی سنائی۔

اسی طرح ہم نے’’اتحاد و انسجام‘‘ نامی ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں تقریباً ۲۰۰ صفحات میں اتحاد و انسجام سے متعلق آیات و روایات کو بیان کیا ہے اس طرح کا کام اب تک کسی بھی رسالہ میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔